Error:URL rejected: Malformed input to a URL function
/ تاریخِ اسلام / بنو امیہ

خلافتِ بنو اُ میہ جس کے بادشاہوں نے اہل بیت کو چن چن کر شہید کیا تھا۔

حضرت عثمان رضی الله عنه کی مظلومانہ شہادت کے بعدحضرت علی  رضی الله عنه  لوگوں کے مطالبہ پر  انتہائ نا مساعد حالات میں مسندِ خلافت پر براجمان ہوے۔ اس وقت مدینہ میں ہر طرف بلوائ تھے ،انہی کی سازشوں کے نتیجے میں  "جنگِ جمل " جیسا اندوہ ناک واقعہ پیش آیا۔یہ جنگ حضرت عایشه رضی الله عنه اور حضرت علی کے مابین  ہوئ تھی۔اس جنگ میں حضرت علیؑ کو فتح حاصل ہوی لیکن آپ نے اماں عایشه رضی الله عنه کو با عزت طور پر رخصت کیا۔

  لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد مسلمانوں کے مابین ایک اور جنگ " جنگِ صفین" ہوئ۔ یہ جنگ حضرت امیر معاویہ اور مولا علیؑ کے مابین  خون عثمان  کے مطالبے پر ہوئ تھی۔اس جنگ میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہا تھا  اس میں کوئ شک نہیں کہ مولا علیؑ حق پر تھے۔ 

لیکن  مسلمانوں کی آپس میں یہ خون ریزی تحکیم کے بعد بند ہوئ تھی جس کے بعد خوارج کا ظہور ہوا۔خارجیوں نے حضرت علی،حضرت امیر معاویہ،اور حضرت عمر و بن العاص  رضی الله عنه کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا،لیکن وہ صرف حضرت علیؑ کو شہید کرنے میں کامیاب ہو تھے۔جس کے بعد  امام حسن ؑ آپ کے جانشین بنے ،لیکن انہوں نے  حضرت معاویہ سے صلح کر کےایک معاہدے کے تحت   خلافت ان کے سپرد کر دی تھی۔

آلِ اُمیہ کا پہلا خلیفہ بننے کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنه نے بغاوتوں  کو ختم کیا۔اسی لیے ان کے عہد میں مشرق کی سمت فتوحات بہت کم ہوئ تھیں۔

41ہجری میں ہرات کی بغاوت کو کچلا گیا،43ہجری میں کابل کے باشندوں نے بغاوت برہا کی ،تو عبد الرحمٰن بن سمرۃ کو اس مہم پر روانہ کیا گیا۔ اس مہم کے نتیجے میں "سجستان سے لے کر غزنہ"تک کا سارا علاقہ مسمانوں کے قبضے میں آ گیا۔61 ہجری میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنه نے عمر بن عبید امہ کو ارمایل کی مہم  پر روانہ کیا، جنہوں نے  اس سخت معرکے کے بعد اس شہر کو فتح کیا۔62 ہجری میں سندھ اور مکران کے موامی لوگوں نے اسلامی فوج پر حملہ کر کے  حارث  بن مرہ کو شہید کر دیا حضرت امیر معاویہ رضی الله عنه نے راشد بن عمرو کو ایک زبر دست فوج کے ساتھ روانہ کیا،جس نے  سندھ اور مکران کے درمیانی علاقوں کو فتح کر لیا۔

حضرت امیر معاویہ رضی الله عنه کے دور میں شمالی آفریقہ میں بھی فتوحات جاری رہیں ،آفریقہ کی مہم پر حضرت عقبہ بن نا فع  رضی الله عنه مامور تھے ،انہوں نے 10 ہزار عرب فوج  اور بہت سے  نو مسلم بربریوں  کے ساتھ باغیوں کا قلعہ قمع کیا ور بہت سے علاقے فتح کیے۔

عبید اللہ بن زیاد اور سعید بن عثمان  نے ترکستان، بخارا،سمر قنداور ترمذ کو اموی حکومت کے زیرِ نگین کیا۔49ہجری میں ایک لشکرِ جرار سفیان بن عوف  کی ماتحتی میں قسطنطنیہ روانی کیا گیا ، جس میں کبار صحابہ رضی الله عنہا شریک تھے،قسطنطنیہ رومیوں کا بڑا مرکز تھا  اس لیے  انہوں نے مسلمانوں سے بڑےی زبر دست جنگیں لڑیں ۔اگرچہ قسطنطنیہ فتح نہ ہو سکا لیکن  دور تک کے علاقوں میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئ۔

حضرت امیر معاویہ رضی الله عنه کی خلافت کے آخری دنوں میں  انہوں نے یزید  جو کہ انکا بیٹا تھا اسے اپنا ولی عہد بنا ڈالا اور یہیں سے اسلامی حکومت میں خرابی شروع ہو گی تھی،اسی لیے محدثین  حضرت امیر معاویہ رضی الله عنه کو اسلام کا پہلا بادشاہ تصور کرتے ہیں کیوں کہ خلافت کا دروازہ حضرت امام حسن رضی الله عنه تک تھا اس کے بعد آج تک ملوکیت قابض ہے۔

بنو امیہ کی  خلافت 41ھ تا 132ھ بمطابق661عیسویٰ تا 750عیسویٰ(یعنی تقریباًاکانوے برس)رہی۔اس دوران  شام میں 14 خلفاء رہے، جن کے نام اور مدت حکومت درج زیل ہے:

 

1)معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہ(خلافت 20سال)

2) یزید بن معاویہ(یزید اول)(تین سال،آٹھ ماہ،چودہ دن)

3)معاویہ بن یزید(معاویہ ثانی) -(خلافت ایک ماہ 11دن)

4)مروان بن حکم (8ماہ دو دن)

5)عبد الملک بن مروان(21 سال ڈیڑھ ماہ)

6)ولید بن عبد الملک(9سال ،8ماہ)

7)سلیمان بن عبد الملک(2سال،6ماہ،15دن)

8)حضرت عمر بن عبد العزیز رضی الله عنه (2سال،5ماہ،5دن)

9)یزید بن عبد الملک(یزید ثانی)-(4سال،13 دن)

10)ہشام بن عبد الملک(19 سال،9ماہ،9دن)

11)ولید بن یزید(ولید ثانی)-(1سال،3ماہ)

12)ابوخالد یزید بن ولید(یزیدِثالث)-(2ماہ،10دن)

13)ابراہیم بن ولید(چند دن)

14)مروان الحمار(مروان ثانی)-(5سال،10دن)

 

اس طرح بنو اُمیہ کی مدتِ خلافت  نوے سال ،گیارہ ماہاور تیرہ دن بنتی ہےاور اگر اس میں وہ آٹھ ماہ بھی شامل کر دیے جایں جن میں مروان،عباسیوں سے لڑتا رہا تو مدتِ اکانوے برس، سات ماہ اور تیرہ دن ہو گیاور اگر حضرت  عبد اللہ بن زبیررضی الله عنه  کی حکومت کے 7 سال،10ماہاور 13 دن کم کر دیے جایں  تو مدتِ حکومت 83 برس،4 ماہ باقی رہ جاتی ہے۔

بقول مسعودی"بنو اُمیہ نے ایک ہزار ماہ تک حکومت کی"(یعنی مسعودی حضرت حسن رضی الله عنه اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی الله عنه  کی مدتِ حکومت کو عہد بنو امیہ میں شمار نہیں کرتے۔

 

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

محمد بن قاسم کون تھا؟

عالم اسلام کا یہ عظیم جرنیل 75ھ / 95-694۰ء میں طائف کے مقام پر پیدا ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب عبد الملک بن مروان خلیفۃ المسلمین تھے۔ انہوں نے حجاج بن یوسف کو ۷۵ ھ میں مشرقی ممالک کا…

مزید پڑھیں
سلجوقی سلطنت کے قیام اور زوال کی مکمل داستان

سلجوقی سلطنت کو عالم اسلام کی چند عظیم سلطنتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ سلجوقی سلطنت کا قیام "گیارہویں" صدی عیسوی میں ہوا۔ سلجوق در اصل نسلاََ    اُغوز ترک تھے۔اس عظیم سلطنت کا قیام"طغرل بے"اور"چغری…

مزید پڑھیں
سپین میں مسلمانوں کا 800 سالہ دور حکومت

جزیرہ نما آیبیریا   جو کہ ہسپانیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مغربی رومی سلطنت کے ختم ہو جانے کے بعدیہاں پر مکمل طور "گاتھک" خاندان کی حکومت قایم ہو گی۔لیکن انکی یہ حکومت زیادہ عرصہ…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں